Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

حدیثِ جبریل:


==========================
حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ صحابہؓ کرام کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے، حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ اچانک ایک اجنبی حاضر ہوا، اس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بے حد سیاہ تھے، لباس سے خوشبو کی مہک آرہی تھی، اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کچھ آثار نہ تھے، ہم میں سے کوئی اس نو وارد کو جانتا نہیں تھا، وہ آپﷺ کے قریب نہایت ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور گھٹنے حضورﷺ کے گھٹنوں سے ملا دیئے، اس شخص نے دریافت کیا …
اے محمد ﷺ ! اسلام کیا ہے ؟
حضور ﷺ نے فرمایا:
اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی اِلہٰ نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کر و، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت ہے تو حج کرو۔
نو وارد نے جواب سن کر کہا، آپ ﷺ نے سچ کہا، اس نے پھر پوچھا …
مجھے بتلائیے کہ ایمان کیا ہے ؟
آپ ﷺ فرمایا :
ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اس کی کتاب کو، اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو۔
یہ سن کر بھی اس نے کہا کہ آپ ﷺ نے سچ کہا۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور خود ہی اس کی تصدیق کرتا ہے، پھر اس نے پوچھا …
احسان کس چیز کا نام ہے؟
آپ ﷺ فرمایا :
احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت ایسی دل لگا کر کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
نو وارد نے سوال کیا …
قیامت کب آئے گی؟
آپ ﷺ فرمایا:
جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔
نو وارد نے عرض کیا:
مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے۔
آپ ﷺ فرمایا:
میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں
(۱) جب لونڈی اپنے آقا اور مالک کو جنے گی۔
*(۲) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، صحیح بخاری کے بموجب قیامت غیب کی ان پانچ باتوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آنحضرت ﷺ نے سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۳۴ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے...
" اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ کے ) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (نر ہے یا مادہ ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سر زمین میں اُسے موت آئے گی، بے شک اللہ ہی جاننے والا ہے، خبر دار ہے "
(سورۂ لقمان : ۳۴ )
پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! اس کو پھر لے آؤ ، لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کو کچھ عرصہ بیت گیا، ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ شخص جو سوالات کر رہا تھا کون تھا ؟
حضرت عمرؓ نے عرض کیا! اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا، وہ جبرئیلؑ تھے، تمہاری مجلس میں اس لئے آئے تھے کہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں۔
یہ بہت مشہور حدیث ہے جو عام طور پر حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اسے " اُم الاحادیث " بھی کہا جاتا ہے، اسے حیات طیبہ کی ۲۳ سالہ جد وجہد کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے، یہ واقعہ تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد اس وقت ہوا جبکہ اس دنیا میں آپ ﷺ کی عمر مبارک میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جبرئیل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہوں لیکن اس دفعہ نہ پہچان سکا کیونکہ وہ ایک بدو سائل کے بھیس میں آئے تھے، امین وحی نہیں بلکہ ملائکہ کے نمائندہ بن کر آئے تھے، میں نے انھیں افق اور سدرۃالمنتہیٰ پر ہیٔت اصلی میں بھی دیکھا، یہ موقع عینی مخلوق کی نمائندگی کا تھا لہٰذا پردہ بعد میں اٹھا، دین مکمل ہوگیا، اب قیامت تک اس میں نہ کوئی کمی ہوسکتی ہے اور نہ بیشی، زمین وآسمان کی مخلوق نے گواہی دی.
(سیرت احمد مجتبی ﷺ ٰ)
رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے والا آخری وفد:
=================================
یہ وفد محرم ۱۱ ہجری میں آیا تھا جس میں (۲۰۰ ) افراد تھے، اس وفد کو حضرت رملہ ؓ بنت حارث کے مکان میں ٹھہرایا گیا تھا جو حضرت معاذؓ بن عفرا کی زوجہ تھیں اور بنی نجار کی صحا بیہ تھیں، اس وفد کے لوگوں نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کے ہاتھ پر یمن میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے والا آخری وفد تھا، یہ لوگ یمن کے مذحج قبیلہ کی شاخ تھے۔
اس وفد کے ایک شخض زرارہؓ بن عمرو نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں نے راستہ میں عجیب خواب دیکھے، فرمایا: بیان کرو، عرض کیا میں نے قبیلہ میں ایک گدھی چھوڑ رکھی ہے، اس نے سیاہ اور سرخ رنگ کا بچہ جنا ہے، فرمایا: کیا تمہاری کوئی لونڈی حاملہ تھی؟ کہا : ہاں، ارشاد ہوا: اس نے لڑکا جنا ہے تو تیرا ہی ہے، عرض کیا: اور اس کا رنگ ایسا کیوں ہے؟ فرمایا: قریب آجاؤ، آہستہ سے پوچھا، کیا تمہیں برص ہے جسے چھپاتے ہو؟ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اس کا کسی کو علم نہیں، فرمایا: اسی کا اثر ہے۔
ایک اور خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا، میں نے زمین سے آگ نکلتے دیکھی، پھر وہ آگ میرے اور میرے بیٹے عمرو کے درمیان حائل ہوگئی، تعبیر میں فرمایا: یہ وہ فتنہ ہے جو آخر میں ظاہر ہوگا، پوچھا … فتنہ کیا ہے؟ ارشاد ہوا: لوگ اپنے امام کو قتل کر دیں گے، آپس میں خونریزی ہوگی، خون پانی کی طرح ارزاں ہوجائے گا، اگر تم مر گئے تو تمہارا بیٹا اسے دیکھے گا اور اگر وہ مر گیا تو تم اس فتنہ کو دیکھو گے، عرض کیا: دعا فرمائیے کہ میں اس زمانہ کو نہ پاؤں، آپ ﷺ نے دعا فرمائی، چند دنوں بعد وہ انتقال کر گئے، ان کا بیٹا زندہ رہا، بعد میں جب امیر المومنین حضرت عثمان ؓبن عفان کی شہادت کا فتنہ برپا ہوا تو حضرت زرارہؓ کا بیٹا بیعت توڑ کر باغیوں کے ساتھ تھا۔
(سیرت احمد مجتبیٰ ﷺ)
آپ ﷺ کے دور نبوت کی آخری وحی:
=========================
حضرت عبداللہ ؓ بن عمر سے روایت ہے کہ سورۂ نصر ایام تشریق کے وسط میں منٰی کے مقام پر نازل ہوئی، اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر وہ مشہور خطبہ ارشاد فرمایا جس کے اختتام پر لوگوں کی شہادت پر اللہ کو گواہ بنایا، جس وقت یہ سورت نازل ہوئی تو بعض صحابہؓ یہ سمجھ گئے کہ اب نبی ﷺ کا آخری وقت آگیا ہے، اس سے چند دن قبل ہی سورۂ مائدہ کی آیت ۳ نازل ہوچکی تھی جس میں فرمایا گیا:
'' آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا " ( سورۂ مائدہ : ۳ )
تکمیل دین کی آیت کا نزول اس بات کا اشارہ تھا کہ کارِ نبوت اختتام کو پہنچ چکا ہے، چنانچہ مزاج دانِ رسول حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ مضطرب ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، حضرت عبداللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ سورۂ نصر مکمل نازل ہونے والی آخری سورت ہے جس طرح سورۂ فاتحہ مکمل نازل ہونے والی پہلی سورت تھی حالانکہ اس سے پہلے سورہ ٔ اقراء اور سورۂ مدثر کی چند آیات نازل ہوچکی تھیں، تکمیل دین کی آیت کے نزول کے بعد حضور اکرم ﷺ اس دنیا میں کل (۸۰) دن رہے۔
سورۂ نصر کا ایک نام سورۃ التوریع بھی ہے، ( کسی کو رخصت کرنے کو توریع کہا جاتا ہے ) اس کے بعد آیت کلالہ (جو سورۂ نساء کی آخری سورت ہے ) نازل ہوئی جب کہ حضورﷺ کے اس دنیا کے قیام کے پچاس دن باقی رہ گئے تھے، حضرت براءؓ بن عازب نے اسے سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت بیان کیا ہے، حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے ابھی ۳۵ دن باقی تھے کہ سورۂ توبہ کی آیات ۱۲۸ اور ۱۲۹ نازل ہوئیں جنھیں حضرت ابیؓ بن کعب سب سے آخر نازل ہونے والی آیت کہتے ہیں :
" تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں(۱۲۸ ) پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو آپﷺ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے''
( سورۂ توبہ: ۱۲۹ )
حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۱ قرآن میں نازل ہونے والی آخری آیت ہے۔
" اور اس دن سے ڈرو جبکہ تم اللہ کے حضورلوٹ جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا '' ( سورۂ بقرہ ۲۸۱ )
حضرت سعیدؓ بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے (۹) دن بعد حضورﷺ کی وفات ہوئی، حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جب سورۂ نصر نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے، اس سورۃ کے نزول کے بعد آپﷺ ہر نماز کے بعد دعا فرماتے :
" سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی"
حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ آخری زمانہ میں آپ ﷺ اُٹھتے بیٹھتے " سبحان اللہ و بحمدہ " پڑھا کرتے تھے، حضرت عبداللہؓ بن عباس فرماتے ہیں کہ سورۂ نصر کے نزول کے بعد آنحضرت ﷺ آخرت کے لئے ریاضت میں حد درجہ مشغول ہوگئے، حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ عبادت میں اتنا مجاہدہ فرمایا کہ پاؤں متورم ہوگئے تھے۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وصال سے ایک مہینہ پہلے چند خاص صحابہؓ کو حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں طلب فرمایا، جب سب حاضر ہوئے تو آپ ﷺ اشکبار ہوئے، یہ کیفیت دیکھ کر سب پر گریہ کی حالت طاری ہوگئی، آپﷺ نے فرمایا :
" میں تم کو تقویٰ اور اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، تم کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم کو اللہ کے عذاب سے ڈ راتا ہوں، میں نذیر مبین ہوں، تم کو ہر گز تکبر نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے تم کو امر فرمایا ہے کہ " یہ دارِ آخرت ہم انہیں کو دیں گے جو زمین میں نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ فساد مچاتے ہیں اور انجام کار متقیوں کے لئے ہے اور دوزخ متکبرین کا ٹھکانہ ہے "
ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپﷺ کو بھی موت آئے گی ؟ فرمایا: جدائی کا وقت قریب ہے، عرض کیا آپ ﷺ کو غسل کون دے گا؟ فرمایا ! میرے اہل بیت کے مرد جو میرے قریبی عزیز ہیں، عرض کیا: آپ ﷺ کو کن کپڑوں میں کفنائیں؟ فرمایا: جو میرے جسم پر ہو، یا چاہو تو مصری، یا یمنی حُلہ، یا سفید کپڑے میں۔ پوچھا … کیا ہم آپ ﷺ پر نماز پڑھیں؟ اس کے بعد سب پر گریہ طاری ہوگیا، فرمایا! صبر کرو، اللہ تعالیٰ تم کو اپنے نبی کی جانب سے خیر عطا فرمائے گا۔
ارشاد ہوا:
" کفن میں لپیٹ کر قبر کے کنارے رکھ دو، تھوڑی دیر کے لئے وہاں سے ہٹ جاؤ تاکہ سب سے پہلے جبرئیل ؑ نماز پڑھیں، پھر میکائیل ؑ پھر اسرافیل ؑ پھر ملک الموت تمام فرشتوں کے ساتھ ، پھر تمام لوگ گروہ در گروہ، ابتداء میرے اہل بیت کریں پھر اہل بیت کی عورتیں، اس کے بعد تمام اصحاب، نوحہ و فریاد سے مجھےاذیت نہ دینا، میرا سلام ان لوگو ں تک پہنچا دینا جو غائب ہیں، جو میرے دین کی پیروی کر ے اور میری سنت کی اتباع کرے قیامت تک میرا ان پر سلام ہو "
عرض کیا :
یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کو قبر میں کون اُتارے گا ؟ فرمایا: میرے اہل بیت تمام فرشتوں کے ساتھ جنھیں تم دیکھ نہ سکو گے مگر وہ تمہیں دیکھتے ہوں گے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی دنیا سے رخصت ہی نہیں ہوتا جب تک جنت میں اپنا گھر نہ دیکھ لے، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے، حضرت عائشہؓ یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا ، " میں نے رفیق اعلیٰ کو اختیار کیا " ، حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد آپ ﷺ نے محرم اور صفر کے مہینوں میں مدینہ ہی میں قیام فرمایا۔
ماخوذ از مستند تاریخ اسلام

Post a Comment

0 Comments