Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

APS School Peshawar 16 December Incident

آرمی پبلک سکول پشاور کے تناظر میں لکھا جانے والا کالم
تحریر: محمد حمزہ حیدر

ہم تمھیں بھولے نہیں


سردیوں کی صبح تھی۔بچے اپنے اپنے والد کے ساتھ مسجدوں سے نمازِ فجر پڑھ کر گھر آئے۔آکر قرآن پڑھنے لگے۔مائیں ناشتہ بنانے میں مصروف تھیں کہ بچوں سکول کا وقت ہوا چاہتا ہے۔بچے بھی تیار ہو کر ناشتے پر آئے۔کچھ نے تو ناشتہ آکر کرنے کا کہا اور پھر اس کے بعد باپ ان کو موٹر سائیکل یا گاڑی پر سکول چھوڑنے کے لیے نکلنے ہی لگتا ہے کہ ماں آکر اپنے بچے کا بے اختیار ماتھا چوم لیتی یے۔پھر وہ سکول پہنچ باپ سے الوداعی سلام کرتا ہے اور سکول میں داخل ہو جاتا ہے۔کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آج کتنے بچے اپنی ماؤں سے دور جانے والے ہیں،کتنی بچے اپنے باپ کو کھو کر آگے نکل جائیں گے۔128کتنی بہنیں اپنے ویر کھونے والی ہیں۔

بچے خوشی خوشی سکول میں داخل ہو جاتے ہیں۔سب دل لگا کر پڑھتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کا مستقبل ہیں۔لیکن اچانک گولیوں کی آوازیں ان کے دل میں دہشت بھر گئی۔سب پریشان ہو کر باہر دیکھنے لگے۔مگر باہر منظر ہی تبدیل ہے۔کچھ بانقاب چہرے ان  کے کمرے کی طرف آرہے تھے۔سب کو اپنا اختتام نظر آگیا۔دیکھتے دیکھتے سارے بچے کرسیوں اور میزوں کے نیچے چھپ گئے لیکن یہ جگہیں ان درندوں سے پوشیدہ نہیں تھیں۔آتے ہی ان ظالمو نے بچوں کو نکال کر گولیاں ماری شروع کردیں اس وقت درندگی بذات خود شرمندہ کھڑی تھی۔لیکن ان بے رحموں کو نظر نا آئی۔چند لمحوں میں استاد سمیت سب بچے  خون میں لت پت تھے۔جی ہاں میں 16 دسمبر 2014،پشاور کے آرمی پبلک سکول کی بات کر رہا ہوں۔اس دن کچھ ظالم لوگ مسلمانوں کی نسلوں کو سکول کی سے ڈرانہ چاہتے تھے تاکہ امتِ محمدی صرف اپنے گھروں تک محدود ہوجائے۔لیکن ان کو کیا معلوم کہ ہم نے جن بچوں کو شہید کیا ہے ان کی شہادت سے پاکستانیوں کے حوصلے پست نہیں ہو سکتے۔کیونکہ ان بچوں کی شہادت سارے پاکستانیوں کے حوصلے بلند کر گئیں۔کیونکہ مومن کبھی گھبرایا نہیں کرتا بلکہ گھبراہٹ کا مقابلہ کرتا ہے۔اگرچہ اس وقت ساری قوم غمگین تھی لیکن اس کا مورال ابھی بھی بلند تھا۔ لیکن مائیں تو آخر مائیں ہوتی ہیں۔وہ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو خون آلود یونیفارم سمیت گلے لگا کر رو رہی تھیں۔لیکن ان کو شاید ہی یہ پتہ ہو کے ہمارے یہ شہید بچے بروزِ محشر اپنے والدین کو اپنے ساتھ جنت میں لے جانے کا سبب بنیں گے۔
کوئی اسکول کی گھنٹی بجا دے 
یہ بچہ مسکرانا چاہتا کے

Post a Comment

0 Comments